غزل
حامد اقبال صدیقی
جدائیوں کے تصوّر ہی سے رُلاؤں اُسے
میں جھوٹ موُٹ کا قصّہ کوئی سُناؤں اُسے
اُسے یقین ہے کتنا مِری وفاؤں کا
خلاف اپنے کسی روز ورغلاؤں اُسے
وہ تپتی دھوپ میں بھی ساتھ میرے آئے گا
مگر میں چاندنی راتوں میں آزماؤں اُسے
غموں کے صحرا میں پھِرتا رہوں اُسے لے کر
اُداسیوں کے سمندر میں ساتھ لاؤں اُسے
مزہ تو جب ہے اُسے بیڑ میں کہیں کھودوں
پھر اُس کے بعد کہیں سے میں دھونڈ لاؤں اُسے
یہ کیا کہ روز وہی سوچ پر مسلّط ہو
کبھی تو ایسا ہو، کچھ دیر بھول جاؤں اُسے
کچھ اور خواب بھی اُس سے چھُپا کے دیکھے ہیں
کچھ اور چہرے نگاہوں میں ہیں، دِکھاؤں اُسے
وہ گیلی مٹّی کی مانند ہے، مگر حامدؔ
ضروری کیا ہے کہ اپنا ہی سا بناؤں اُسے
No comments:
Post a Comment